تحریر شہباز ملک
ایک طرف سیلاب سے پاکستان کے متعدد شہرڈوبے ہوئے ہیں اورسیلاب متاثرین غریب اپنا سب کچھ اجڑنے پرسیلاب زدہ علاقوں میں پانی کے کنارے اپنا سرپکڑے بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ کریہ سوچ رہے ہیں کہ ہائے اب آنے والے وقت میں ان کا اوران کے بچوں کا کیا حال ہوگا ان کا گھر،مویشی،فصلیں اورگھرکا ایک ،ایک برتن جوانہوں نے بڑی مشکلوں سے اکٹھا کیا تھا اب وہ سب سیلاب کے تیزریلوں میں بہہ گیا ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ سیلاب سے سب سے زیادہ ان کا صوبہ متاثرہوا بدقمستی سے اس آفت میں بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پوائنٹ سکورنگ اورروایتی سیاسی جملے ایک دوسرے پربرسانے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جبکہ اس دوران جتنی تیزی سے سیلاب کا پانی سیلاب زدہ علاقوں سے گزررہا ہے اورہرطرف تباہی مچارہا ہے اسی تیزسپیڈ کے ساتھ ملک میں مہنگائی کے جن کی سپیڈ بھی مسلسل تیزہورہی ہے اوردوسری جانب ہمیشہ کی طرح ملک میں چاہے زلزلہ آئے یا کورونا جیسی صدی کی سب سے بڑی بیماری آئے یا سیلاب آئے ذخیرہ اندوزمافیا کے چھری،چاقوؤں کے وارسے غریب مسلسل زخمی ہوئے ہیں اورسرمایہ کاروں کی ہمیشہ کی طرح چاندی اوربینک بیلنس بڑھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جناب وزیراعظم صاحب! سیلاب کے دوران مہنگائی مافیا کولگام ڈالی جائے ،،اور‘کاش ایسا ہوجائے‘ ملک میں سب سے بڑی قدرتی آفت کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران وزیراعظم شہبازشریف،عمران خان،آصف زرداری،مولانا فضل الرحمان،بلاول بھٹواورچاروں صوبوں کے چیف منسٹرزاورتمام وزرا ایک ماہ تک سیلاب متاثرین کے ساتھ رہیں اوران کے دکھوں کوان کے درمیان رہ کرمحسوس کریں توانہیں اندازہ ہوکہ سیلاب متاثرین اس وقت کس کرب سے گزررہے ہیں انہیں اس وقت پیار،محبت اورکھانے پینے کی اشیا کی اشد ضرورت ہے اورانہیں مختلف بیماریوں سے بچانے کی بھی ضرورت ہے خدارا ایک ماہ تک تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سالانہ چھٹیاں سمجھ کرہی سیلاب متاثرہ علاقوں میں چلے جائیں تواس سے بڑی انسانیت کی خدمت کوئی نہیں ہوسکتی ،کاش ایسا ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔