ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد (جرمنی)
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی شدید بارشوں اور سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا ہے۔سندھ کے کئی اضلاع پانی میں ابھی تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ کراچی جہاں اس سال تباہ کن بارشیں ہوئی ہیں وہاں بھی ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ کا بڑے پیمانےپر پھیلاؤ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اندرون سندھ، جنوبی پنجاب کے متاثرہ اضلاع میں صحت کا ڈھانچہ بھی تباہ حال ہے اس لیے نہ تو متاثرین کا ڈیٹا کہیں پر موجود ہے اور نہ ہی ان کے علاج معالجے کے لیے کسی سہولت کا امکان ہے۔ متاثرین سیلاب اس وقت ہیضہ اور ملیریا سمیت جن جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ان میں ڈینگی سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ماہرین موسمیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ ڈینگی مچھر کی افزائش کے لیے جو سازگار ماحول درکار ہوتا ہے اس بار پاکستان کے بیشتر علاقوں میں نہ صرف وہ موجود ہے بلکہ اس کا دورانیہ بھی طویل تر ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ ڈینگی کے لیے سازگار موسم میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے 2080 تک مزید ایک ارب لوگ ڈینگی کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گے کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ڈینگی کے پھلنے پھولنے کے موسم میں چار ماہ تک کا اضافہ ہو جائے گا۔
ڈینگی کا نام آتے ہی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مرض کیسے ہوتا ہے؟ڈینگی کا مرض خاص قسم کے دھبے دار جلد والے مادہ مچھر ایڈیز ایجپٹی کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ نر سے ملاپ کے بعد مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے۔ تاہم سیلاب کے باعث لاکھوں ایکٹر پر کھڑے پانی میں بھی مچھر کی افزائش ہو رہی ہے ،،،یہ مچھر شدید سردی اور شدید گرمی میں مر جاتا ہے۔
اس مچھر کے انڈے اور لاروے کی پرورش صاف پانی میں ہوتی ہے ،بارش کے بعد گھروں کے آس پاس یا لان، صحن وغیرہ میں جمع ہونے والے پانی ،گملوں،روم کولر اور اے سی کاگرتا پانی مچھر کی افزائش کیلئے مدد فراہم کرتا ہے۔
ڈینگی کے مرض کی پہلی اسٹیج میں تیز بخار کے ساتھ جسم خصوصاً کمر اور ٹانگوں میں درد اور شدید سر درد شامل ہیں اس کے علاوہ مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہو سکتی ہے۔جلد پرسرخ دھبے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔ بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
ڈینگی کے مرض کی دوسری اسٹیج میں جسم کے اندر خون کی نالیاں متاثر ہو تی ہیں ۔ پیٹ کے اندر شدید درد محسوس ہوتا ہے ۔تیسری اسٹیج میں خون پیٹ کے اندر جمع ہونا شرو ع ہو جاتا ہے ،، جسم کو شدید جھٹکے لگنے شروع ہوتے ہیں اور مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ ڈینگی وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے بعد سو میں سے ایک فیصد مریض پہلی اسٹیج سے دوسری اسٹیج میں جا سکتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کی چار ٹائپس ہیں کسی بھی ایک ٹائپ کے حملے کے بعد ریکور ہونے پر دوبارہ اس ٹائپ کا حملہ انسان پر زندگی بھر نہیں ہوتا لیکن دیگر ٹائپس کا حملہ ممکن ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کو زندگی میں چار مرتبہ ڈینگی بخار ہو سکتا ہے۔
ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے پورے آستین والی قمیص یا شرٹ اور مکمل ٹروزر یا شلوار پہننی چاہیے، پرانے ٹائرز،گملوں،روم کولر میں پانی نہ کھڑے ہونے دیں۔ بارش کے بعد پانی کو صحن اور لان سے جلد از جلد صاف کریں۔ اے سی کے گرتے پانی کی نقاسی کا بھی اہتمام کیا جائے۔